پاکستان کے سابق فوجی حکمران ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف اور بھارت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ کے درمیاں مسئلہ کشمیر پر چار برسوں تک خفیہ مذاکرات ہوتے رہے اور معاملات طے پانے کے قریب تھے کہ پاکستان میں مشرف حکومت
ختم ہو گئي۔
پاکستان اور بھارت کے درمیاں ایسے مذاکرات جن کو ’بیک چینل‘ کا نام دیا گيا تھا پاکستان کی طرف سے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے کالج کے دنوں کے دوست اور معتمد خاص طارق عزيز اور بھارت کی طرف سے ستندر لامبا کے درمیاں لندن، دبئي اور بنکاک کے ہوٹلوں میں نہایت ہی رازدرانہ انداز میں جاری رہے تھے جنہیں منموہن سنگھ اور پرویز مشرف کی مکمل تائید حاصل تھی۔
یہ انکشافات امریکی صحافی اسٹیو کول نے موقر ہفت روزہ ’نیویارکر‘ کے تازہ شمارے میں کیے ہیں۔
یہ انکشافات امریکی صحافی اسٹیو کول نے موقر ہفت روزہ ’نیویارکر‘ کے تازہ شمارے میں کیے ہیں۔
اسٹیو کول کی تحقیقی رپورٹ میں دونوں ملکوں کے درمیاں مسئلہ کشمیر کے حوالے سےتعلقات کی تاریخ، ممبئي بم حملوں کے پس منظر میں پاکستان بھارت تعلقات میں تناؤ، پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے جہادی گروپوں کے درمیان مبینہ تعلقات اور سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں بھارت کےساتھ ہونے والی اس مبینہ ڈیل کا احاطہ کیا گیا ہے جو ان کے بقول ہوتے ہوتے رہ گئی۔
اسٹیو کول نے امریکی اور بھارتی اہلکاروں سے اپنی بات چیت کی بنیاد پر یہ دعوی بھی کیا ہے کہ گزشتہ نومبر کو ممبئي میں ہونےوالے حملے اصل میں آئي ایس آئی کی طرف سے صدر آصف علی زرداری کی بھارت کےساتھ قیام امن کی کوششوں کا جواب تھے۔ اسٹیو کول نے امریکی اور بھارتی اہلکاروں سے اپنی بات چیت کی بنیاد پر یہ دعوی بھی کیا ہے کہ گزشتہ نومبر کو ممبئي میں ہونےوالے حملے اصل میں آئي ایس آئی کی طرف سے صدر آصف علی زرداری کی بھارت کےساتھ قیام امن کی کوششوں کا جواب تھے۔
اسٹیو کول کے مطابق بھارتی اہلکار ممبئی حلموں کو ’زرداری کا کارگل‘ کہتے ہیں۔
صحافی اسٹیو کول نے لکھا ہے کہ امریکی اور بھارتی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری کو اپنی سلامتی کے بارے میں سخت تشویش لاحق ہے اور یہ بھی کہ ’بیک چنیل‘ مذاکرات کی ہی وجہ سے بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کی حکومت ممبئی حملوں کے ردعمل میں، بھارتی عوامی دباؤ کے باوجود، پاکستان کے خلاف حملوں کا راستہ اختیار نہ کرسکی۔
اسٹیو کول نے اپنے مضمون میں بتایا ہے کہ دو سال قبل پرویز مشرف نے اپنے راولپنڈي کے دفتر میں سینئر جرنیلوں اور دفتر خارجہ کے دو اہلکاروں کےساتھ کئي ملاقاتیں کی تھیں جن میں وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان برسوں تک جاری رہنے والے ’بیک چینل‘ یا خفیہ مذاکرات کا جائزہ لیتے رہے تھے۔
امریکی صحافی کے مطابق مذاکرات نصف سے زیادہ کامیاب ہوچکے تھے اور بھارت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ پاکستان کا دورہ کرنے والے تھے کہ مشرف کے آمرانہ اقدامات کی وجہ سے پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ہٹائے جانے کے نتیجے میں مشرف کا ستارہ گردش میں آتا چلا گيا اور نصف سے زیادہ کامبابی تک پہنچ جانے کے باوجود یہ خفیہ مذارکات تعطل کا شکار ہوگئے۔
انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ مجوزہ معاہدے کے مسودے کو ’نان پیپر ايگریمینٹ‘ کا نام دیا گيا تھا جس میں مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کی تلاش کو بنیادی اصول کے طور پر اپنایا گيا تھا ۔
اسٹیو کول نے ان لوگوں کے حوالے سے جنہوں نے یہ ’نان پیپر‘ مسودہ دیکھا تھا، لکھا ہے کہ یہ دو ہزار سات کی شروعات میں تحریر کیا گيا تھا اور اس کے تحت کمشیریوں کو لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف آزادانہ طور پر نقل و حمل اور تجارت کرنے کے خصوصی حقوق دینے کے علاوہ تشدد رکنے کی صورت میں دونوں ممالک کی سرحدوں پر تعینات فوجوں کی تعداد میں بتدریج کمی اور لائن آف کنٹرول کو ایک بین الاقوامی سرحد کی حیثییت سے تسلیم کرنا بھی شامل تھا۔
اسٹیو کول نے اپنے مضمون میں بتایا ہے کہ دو سال قبل پرویز مشرف نے اپنے راولپنڈي کے دفتر میں سینئر جرنیلوں اور دفتر خارجہ کے دو اہلکاروں کےساتھ کئي ملاقاتیں کی تھیں جن میں وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان برسوں تک جاری رہنے والے ’بیک چینل‘ یا خفیہ مذاکرات کا جائزہ لیتے رہے تھے۔
امریکی صحافی کے مطابق مذاکرات نصف سے زیادہ کامیاب ہوچکے تھے اور بھارت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ پاکستان کا دورہ کرنے والے تھے کہ مشرف کے آمرانہ اقدامات کی وجہ سے پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ہٹائے جانے کے نتیجے میں مشرف کا ستارہ گردش میں آتا چلا گيا اور نصف سے زیادہ کامبابی تک پہنچ جانے کے باوجود یہ خفیہ مذارکات تعطل کا شکار ہوگئے۔
انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ مجوزہ معاہدے کے مسودے کو ’نان پیپر ايگریمینٹ‘ کا نام دیا گيا تھا جس میں مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کی تلاش کو بنیادی اصول کے طور پر اپنایا گيا تھا ۔
اسٹیو کول نے ان لوگوں کے حوالے سے جنہوں نے یہ ’نان پیپر‘ مسودہ دیکھا تھا، لکھا ہے کہ یہ دو ہزار سات کی شروعات میں تحریر کیا گيا تھا اور اس کے تحت کمشیریوں کو لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف آزادانہ طور پر نقل و حمل اور تجارت کرنے کے خصوصی حقوق دینے کے علاوہ تشدد رکنے کی صورت میں دونوں ممالک کی سرحدوں پر تعینات فوجوں کی تعداد میں بتدریج کمی اور لائن آف کنٹرول کو ایک بین الاقوامی سرحد کی حیثییت سے تسلیم کرنا بھی شامل تھا۔
صحافی کے مطابق یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس معاہدے پر عمل کرنے کیلیے کتنی معیاد مقرر کی گئي تھی۔ لیکن مسودے سے واقق ایک شخص نے یہ عرصہ دس سے پندرہ سال بتاتا ہے۔
اسٹیو کول نے بھارتی اور پاکستانی عملداروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگرچہ ان مذاکرات کیلیے پاکستانی میڈیا، عوام اور بھارتی پارلیمان میں رائے ہموار کرنا باقی تھا لیکن وزیراعظم من موہن سنگھ پاکستان کا دورہ کرنے والے تھے جہاں سر کریک کے تنازعہ کے تصفیے کا اعلان ہونا تھا۔
اسٹیو کول نے مشرف حکومت کے سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری کے حوالے سے بتایا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے فوجی جرنیلوں سمیت اپنی حکومت کے تمام سرکردہ اہلکاروں کو ان مذاکرات پر منوا لیا تھا اور انہوں نےپاکستان کی بھارت کی طرف پالیسی میں’ یو ٹرن‘ لیا ہوا تھا۔
اسٹیو کول نے لکھا ہے کہ مذاکرات کو انٹر سروسز انٹیلیجنس یا آئی ایس آئی کے تب کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی بھی حمایت حاصل تھی۔
مذاکرات کے پس منظرمیں بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کھلے عام کہا تھا کہ ’میں اس دن کا خواب دیکھ رہا ہوں جب اپنی قومی شناختیں برقرار رکھتے ہوئے، ہم ناشتہ امرتسر میں کر رہے ہوں گے تو دو پہر کا کھانہ لاہور میں اور رات کا کھانا کابل میں کھا رہے ہونگے۔‘
لیکن اسٹیو کول لکھتے ہیں کہ یہ سب کچھ خواب ہی رہ گیا کیونکہ مشرف کیلیے پاکستان میں حالات روز بہ روز ابتر ہوتے گئے اور انجاکار ان کی حکومت چلی گئی۔
جنرل مشرف سے اپنی ملاقات کے بارے میں اسٹیو کول کہتے ہیں کہ جب اس مجوزہ ڈیل کے بارے میں ان سے پوچھا تو جواب تھا کہ: ’ اسکے لیے دونوں فرقیقین کی طرف سے جرئت کی ضرورت تھی۔۔۔خاص طور پر بھارت کی جانب سے اس ہمت کی کمی تھی۔۔۔ میں فقط رعاتیں نہیں دے رہا تھا ، میں انڈیا سے رعایتیں لے بھی رہا تھا۔‘
’اس سے پاکستان او بھارت دونوں کا ہی فائدہ ہوتا۔‘
اسٹیو کول نے بھارتی اور پاکستانی عملداروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگرچہ ان مذاکرات کیلیے پاکستانی میڈیا، عوام اور بھارتی پارلیمان میں رائے ہموار کرنا باقی تھا لیکن وزیراعظم من موہن سنگھ پاکستان کا دورہ کرنے والے تھے جہاں سر کریک کے تنازعہ کے تصفیے کا اعلان ہونا تھا۔
اسٹیو کول نے مشرف حکومت کے سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری کے حوالے سے بتایا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے فوجی جرنیلوں سمیت اپنی حکومت کے تمام سرکردہ اہلکاروں کو ان مذاکرات پر منوا لیا تھا اور انہوں نےپاکستان کی بھارت کی طرف پالیسی میں’ یو ٹرن‘ لیا ہوا تھا۔
اسٹیو کول نے لکھا ہے کہ مذاکرات کو انٹر سروسز انٹیلیجنس یا آئی ایس آئی کے تب کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی بھی حمایت حاصل تھی۔
مذاکرات کے پس منظرمیں بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کھلے عام کہا تھا کہ ’میں اس دن کا خواب دیکھ رہا ہوں جب اپنی قومی شناختیں برقرار رکھتے ہوئے، ہم ناشتہ امرتسر میں کر رہے ہوں گے تو دو پہر کا کھانہ لاہور میں اور رات کا کھانا کابل میں کھا رہے ہونگے۔‘
لیکن اسٹیو کول لکھتے ہیں کہ یہ سب کچھ خواب ہی رہ گیا کیونکہ مشرف کیلیے پاکستان میں حالات روز بہ روز ابتر ہوتے گئے اور انجاکار ان کی حکومت چلی گئی۔
جنرل مشرف سے اپنی ملاقات کے بارے میں اسٹیو کول کہتے ہیں کہ جب اس مجوزہ ڈیل کے بارے میں ان سے پوچھا تو جواب تھا کہ: ’ اسکے لیے دونوں فرقیقین کی طرف سے جرئت کی ضرورت تھی۔۔۔خاص طور پر بھارت کی جانب سے اس ہمت کی کمی تھی۔۔۔ میں فقط رعاتیں نہیں دے رہا تھا ، میں انڈیا سے رعایتیں لے بھی رہا تھا۔‘
’اس سے پاکستان او بھارت دونوں کا ہی فائدہ ہوتا۔‘
0 comments:
Post a Comment