پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے نو منتخب وزیراعظم سردار محمد یعقوب خان سن انیس سو ترپن میں جنوبی ضلع راولاکوٹ کے گاؤں علی سوجل میں پیدا ہوئےتھے۔
ان کا تعلق بااثر سدھن قبیلے سے ہے۔ یہ کشمیر میں پہلی مرتبہ ہے کہ اس قبیلے سے کوئی وزیراعظم منتخب ہوا ہے۔
سردار محمد یعقوب خان بچپن میں ہی اپنے بڑے بھائی کے پاس کراچی منتقل ہوگئے تھے جہاں انہوں نے میڑک اور پھر کراچی یونیورسٹی سے بی اے کیا۔
گریجویشن کے بعد ان کو سن ستر کی دہائی میں سعودی عرب کی ایک کمپنی میں ملازمت مل گئی لیکن کچھ عرصے بعد واپس پاکستان آکر انہوں نے اپنا کاروبار شروع کیا۔
اسوقت ان کا بڑا کاروبار ہے، پاکستان میں ہوٹلز ہیں، اپنی ٹرانسپورٹ ہے اور وہ ایک تعمیراتی کمپنی کے بھی مالک ہیں۔
اس کے علاوہ یعقوب خان ایک ایمپلائیمنٹ ایجنسی بھی چلاتے ہیں جس کے تحت لوگوں کو روزگار کے لیے خلیجی ممالک بجھوایا جاتا ہے۔
سن انیس سو اٹھاسی میں پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں سردار یعقوب خان نے پہلی بار سندھ اسمبلی کی ایک نشست پر کراچی سے آزاد امید وار کے طور پر الیکشن لڑا لیکن وہ ناکام رہے۔
اسی دوران سردار یعقوب خان نے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی ایک چھوٹی سیاسی جماعت تحریک عمل میں شمولیت اختیار کی۔
سردار محمد یعقوب خان بچپن میں ہی اپنے بڑے بھائی کے پاس کراچی منتقل ہوگئے تھے جہاں انہوں نے میڑک اور پھر کراچی یونیورسٹی سے بی اے کیا۔
گریجویشن کے بعد ان کو سن ستر کی دہائی میں سعودی عرب کی ایک کمپنی میں ملازمت مل گئی لیکن کچھ عرصے بعد واپس پاکستان آکر انہوں نے اپنا کاروبار شروع کیا۔
اسوقت ان کا بڑا کاروبار ہے، پاکستان میں ہوٹلز ہیں، اپنی ٹرانسپورٹ ہے اور وہ ایک تعمیراتی کمپنی کے بھی مالک ہیں۔
اس کے علاوہ یعقوب خان ایک ایمپلائیمنٹ ایجنسی بھی چلاتے ہیں جس کے تحت لوگوں کو روزگار کے لیے خلیجی ممالک بجھوایا جاتا ہے۔
سن انیس سو اٹھاسی میں پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں سردار یعقوب خان نے پہلی بار سندھ اسمبلی کی ایک نشست پر کراچی سے آزاد امید وار کے طور پر الیکشن لڑا لیکن وہ ناکام رہے۔
اسی دوران سردار یعقوب خان نے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی ایک چھوٹی سیاسی جماعت تحریک عمل میں شمولیت اختیار کی۔
انہوں نے سن انیس سو نوے اور اکانوے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے عام انتخابات میں تحریک عمل کے ٹکٹ پر کراچی سے پاکستان میں مقیم کشمیری پناہ گزینوں کے لیے مختص ایک نشست پر انتخاب لڑا لیکن دونوں مرتبہ کامیاب نہ ہوسکے۔
سن انیس سو پچانونے میں انہوں نے تحریک عمل چھوڑ دی اور مسلم کانفرنس میں شمولیت اختیار کی اور اپنی سیاست کا مرکز راولاکوٹ میں اپنا آبائی حلقہ علی سوجل بنایا۔
سن انیس سو چھیانوے میں کشمیر کے اس خطے کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں انہوں نے مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر اپنے آبائی حلقے سے الیکشن لڑا لیکن وہ اپنے مد مدمقابل سابق صدر مرحوم سردار ابراھیم کے مقابلے میں الیکشن ہار گئے۔
سردار ابراہیم صدر منتخب ہوئے جس کے نتیجے میں یہ نشست خالی ہوئی اور اکتوبر سن چھیانوے میں اس نشست پر دوبارہ انتخاب ہوئے اور سردار یعقوب خان نے پھر قسمت آزمائی لیکن اس بار بھی وہ کامیاب نہ ہوسکے۔
بالآخر سن دو ہزار ایک میں ہونے والے عام انتخاب میں وہ اپنے آبائی حلقے سے رکن اسمبلی منتخب ہوگئے۔
ان انتخابات کے نتیجے میں سردار سکندر حیات کی سربراہی میں مسلم کانفرنس کی حکومت قائم ہوئی اور سردار محمد یعقوب خان وزیر صحت بن گئے، بعد میں ان کو صنعت و حرفت اور پن بجلی کا وزیر بنادیا گیا۔
لیکن جولائی سن دو ہزار چھ کے عام انتخابات میں سردار یعقوب سمیت چھ رہنماؤں کو مسلم کانفرنس کی طرف سے ٹکٹ نہیں دیا گیا۔
سن انیس سو پچانونے میں انہوں نے تحریک عمل چھوڑ دی اور مسلم کانفرنس میں شمولیت اختیار کی اور اپنی سیاست کا مرکز راولاکوٹ میں اپنا آبائی حلقہ علی سوجل بنایا۔
سن انیس سو چھیانوے میں کشمیر کے اس خطے کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں انہوں نے مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر اپنے آبائی حلقے سے الیکشن لڑا لیکن وہ اپنے مد مدمقابل سابق صدر مرحوم سردار ابراھیم کے مقابلے میں الیکشن ہار گئے۔
سردار ابراہیم صدر منتخب ہوئے جس کے نتیجے میں یہ نشست خالی ہوئی اور اکتوبر سن چھیانوے میں اس نشست پر دوبارہ انتخاب ہوئے اور سردار یعقوب خان نے پھر قسمت آزمائی لیکن اس بار بھی وہ کامیاب نہ ہوسکے۔
بالآخر سن دو ہزار ایک میں ہونے والے عام انتخاب میں وہ اپنے آبائی حلقے سے رکن اسمبلی منتخب ہوگئے۔
ان انتخابات کے نتیجے میں سردار سکندر حیات کی سربراہی میں مسلم کانفرنس کی حکومت قائم ہوئی اور سردار محمد یعقوب خان وزیر صحت بن گئے، بعد میں ان کو صنعت و حرفت اور پن بجلی کا وزیر بنادیا گیا۔
لیکن جولائی سن دو ہزار چھ کے عام انتخابات میں سردار یعقوب سمیت چھ رہنماؤں کو مسلم کانفرنس کی طرف سے ٹکٹ نہیں دیا گیا۔
سردار یعقوب سمیت پانچ لوگوں نے آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لیا اور سردار یعقوب سمیت تین امیدوار انتخاب جیت گئے۔
ان انتحابات کے نتیجے میں مسلم کانفرنس دوبارہ برسر اقتدار آئی اور سردار سکندر حیات خان کی جگہ سردار عتیق احمد خان وزیر اعظم بن گئے۔
ان تینوں اراکین نے مسلم کانفرنس کے اندر ہی مسلم کانفرنس حقیقی کے نام سے اپنا گروپ بنالیا اورمارچ دو ہزار آٹھ میں سردار عتیق احمد خان نے ان تینوں کو اپنی کابینہ میں شامل کیا اور سردار یعقوب کو فزیکل پلاننگ اور ہاؤسنگ کی وزرات دے دی گئی ۔
لیکن اسی دوران چھبیس نومبر دو ہزار آٹھ کو مسلم کانفرنس اندرونی اختلافات کے باعث دو حصوں میں بٹ گئی اور سردار یعقوب سمیت مسلم کانفرنس کے دس اراکین اسمبلی عتیق مخالف مسلم کانفرنس دھڑے میں شامل ہوگئے۔
بالآخر مسلم کانفرنس میں بٹوارے نے سردار عتیق احمد خان کو اقتدار سے محروم کیا۔
رواں سال چھ جنوری کو حکومت مخالف مسلم کانفرنس دھڑے نے حزب مخالف کی تمام چار جماعتوں کے چودہ اراکین کی حمایت سے سردار عتیق احمد خان کو عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عُظمی کے عہدے سے ہٹا دیا اور سردار محمد یعقوب خان وزیراعظم منتخب ہوئے۔
سردار یعقوب خان نے کراچی سے لے کر کشمیر تک پانچ مرتبہ انتخاب ہارنے کے بعد بھی صبر کا
دامن نہیں چھوڑا لیکن وزارت اعظمٰی کا عہدہ ان کے لیے ایک بڑا امتحان ہوگا۔
ان انتحابات کے نتیجے میں مسلم کانفرنس دوبارہ برسر اقتدار آئی اور سردار سکندر حیات خان کی جگہ سردار عتیق احمد خان وزیر اعظم بن گئے۔
ان تینوں اراکین نے مسلم کانفرنس کے اندر ہی مسلم کانفرنس حقیقی کے نام سے اپنا گروپ بنالیا اورمارچ دو ہزار آٹھ میں سردار عتیق احمد خان نے ان تینوں کو اپنی کابینہ میں شامل کیا اور سردار یعقوب کو فزیکل پلاننگ اور ہاؤسنگ کی وزرات دے دی گئی ۔
لیکن اسی دوران چھبیس نومبر دو ہزار آٹھ کو مسلم کانفرنس اندرونی اختلافات کے باعث دو حصوں میں بٹ گئی اور سردار یعقوب سمیت مسلم کانفرنس کے دس اراکین اسمبلی عتیق مخالف مسلم کانفرنس دھڑے میں شامل ہوگئے۔
بالآخر مسلم کانفرنس میں بٹوارے نے سردار عتیق احمد خان کو اقتدار سے محروم کیا۔
رواں سال چھ جنوری کو حکومت مخالف مسلم کانفرنس دھڑے نے حزب مخالف کی تمام چار جماعتوں کے چودہ اراکین کی حمایت سے سردار عتیق احمد خان کو عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عُظمی کے عہدے سے ہٹا دیا اور سردار محمد یعقوب خان وزیراعظم منتخب ہوئے۔
سردار یعقوب خان نے کراچی سے لے کر کشمیر تک پانچ مرتبہ انتخاب ہارنے کے بعد بھی صبر کا
دامن نہیں چھوڑا لیکن وزارت اعظمٰی کا عہدہ ان کے لیے ایک بڑا امتحان ہوگا۔
0 comments:
Post a Comment