ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ہمالیائی سلسلہ کے مغربی خطے میں ایک اور تباہ کُن زلزلہ کا امکان ہے جس کے دوران سب سے زیادہ تباہی ہندوستان اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے دونوں حصوں میں ہو سکتی ہے۔
کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ ارضیات کے سربراہ ڈاکٹر محمد اسمٰعیل بٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس خطے میں ایک اور زلزلہ اب کبھی بھی آسکتا ہے۔ یوں تو زلزلہ کی واضح پیش گوئی نہیں کی جاسکتی، لیکن ہمالیہ کے اس خطے کے ارضیاتی جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ آٹھ اعشاریہ ایک رِیکٹر کا زلزلہ آ سکتا ہے۔ جس میں کمپیوٹر تخمینوں کے مطابق سڑسٹھ ہزار سے تیرہ لاکھ تیس ہزار افراد کے مارے جانے جبکہ اُنتیس لاکھ افراد کے زخمی ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ یہ زلزلہ مغربی ہمالیائی خطے میں کانگڑا سے مظفرآباد تک کے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
واضح رہے اکتوبر دو ہزار پانچ میں جو زلزلہ آیا تھا اس میں کنٹرول لائن کے آر پار ستّر ہزار سے زائد افراد مارے گئے اور سینکڑوں بستیاں زمین بوس ہوگئیں۔ تب سے آر پار متعدد مرتبہ زلزلے کے ہلکے جھٹکے محسوس کیے جاتے رہے ہیں۔ جمعہ کی صُبح رِیکٹر پیمانے کے مطابق پانچ اعشاریہ پانچ شّدت کا زلزلہ مظفرآباد اور سرینگر میں ایک ساتھ محسوس کیا گیا۔ اس میں دو طلبا سمیت چھہ افراد زخمی ہوگئے جبکہ ایک سکول عمارت کو جزوی نقصان پہنچا۔
ڈاکٹر اسمٰعیل مزید کہتے ہیں کہ زلزلوں کو روکا نہیں جاسکتا ، لیکن ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں پیشگی تیاریوں کے سلسلے میں سُستی یا غفلت کی شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جاپان اور کیلیفورنیا میں شدید ترین زلزلوں کا مشاہدہ کیا جاچکا ہے لیکن وہاں کی حکومتیں جانی نقصان کو محدود کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یا یو این ڈی پی کے علاقائی رابطہ کار سّید عامر علی فی الوقت کشمیر کی صوبائی انتظامیہ میں انسداد بحران محمکہ کے سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے تین سال کے دوران محکمہ نے انسداد بحران سے متعلق عوامی بیداری مہم کے تحت سینکڑوں ورکشاپ کی ہیں۔
لیکن ڈاکٹر اسمٰعیل اس تیاری کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں ’ آپ ٹیلی ویژن پر یہ کہتے ہیں کہ زلزلہ آیا تو ٹیبل کے نیچے چُھپ جانا۔ یہ کو ئی ڈِزاسٹر منیجمنٹ نہیں ہوتا۔ ہم زلزلہ کے حوالے سے حساس ترین خطے میں رہتے ہیں‘۔
ان کا کہنا ہے کہ تیاری کا مطلب یہ ہے کہ کشمیر کے جغرافیائی خدوخال کو دیکھتے ہوئے جانی نقصان کو محدود کرنے کے لیے پیشگی تدابیر کی جائیں۔ مثال کے طور پر محکمہ بلڈوزر کو شہر میں رکھتا ہے۔
بلڈوزر کی ضرورت تو پہاڑی دیہات میں ہے جہاں زلزلہ کے وقت چٹانیں کِھسک سکتی ہیں۔ اور آگ بجھانے والا عملہ شہر میں ہونا چاہیے لیکن فائر ٹینڈر کو دیہات میں رکھا جاتا ہے۔ ایسی تیاریاں پورے منظرنامہ کو مدنظر رکھ کر کی جانی چاہییں۔
ڈاکٹر اسمٰعیل سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان کو اپنے اپنے زیرانتظام کشمیر میں عمارات کی تعمیر کے لیے ایک الگ قانون وضع کرنا ہوگا جس کے تحت کسی بھی تعمیر سے قبل زمین کی کم از کم تین تہوں کی باقاعدہ جانچ ممکن ہو۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے یہاں کوئی پالیسی نہیں۔ جب زلزلہ آئے گا تو سب سے زیادہ تباہی نئے مکانات اور نئی تعمیرات کی وجہ سے ہوگی کیونکہ یہ سب کچھ نامناسب زمینوں پر ہورہا ہے۔ حکومت نے کروڑوں روپے کی لاگت سے جو بڑے بڑے دفتر تعمیر کیے ہیں وہ ڈھیلی اور دلدل والی زمینوں پر قائم ہیں‘۔
لیکن ڈاکٹر اسمٰعیل اس تیاری کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں ’ آپ ٹیلی ویژن پر یہ کہتے ہیں کہ زلزلہ آیا تو ٹیبل کے نیچے چُھپ جانا۔ یہ کو ئی ڈِزاسٹر منیجمنٹ نہیں ہوتا۔ ہم زلزلہ کے حوالے سے حساس ترین خطے میں رہتے ہیں‘۔
ان کا کہنا ہے کہ تیاری کا مطلب یہ ہے کہ کشمیر کے جغرافیائی خدوخال کو دیکھتے ہوئے جانی نقصان کو محدود کرنے کے لیے پیشگی تدابیر کی جائیں۔ مثال کے طور پر محکمہ بلڈوزر کو شہر میں رکھتا ہے۔
بلڈوزر کی ضرورت تو پہاڑی دیہات میں ہے جہاں زلزلہ کے وقت چٹانیں کِھسک سکتی ہیں۔ اور آگ بجھانے والا عملہ شہر میں ہونا چاہیے لیکن فائر ٹینڈر کو دیہات میں رکھا جاتا ہے۔ ایسی تیاریاں پورے منظرنامہ کو مدنظر رکھ کر کی جانی چاہییں۔
ڈاکٹر اسمٰعیل سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان کو اپنے اپنے زیرانتظام کشمیر میں عمارات کی تعمیر کے لیے ایک الگ قانون وضع کرنا ہوگا جس کے تحت کسی بھی تعمیر سے قبل زمین کی کم از کم تین تہوں کی باقاعدہ جانچ ممکن ہو۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے یہاں کوئی پالیسی نہیں۔ جب زلزلہ آئے گا تو سب سے زیادہ تباہی نئے مکانات اور نئی تعمیرات کی وجہ سے ہوگی کیونکہ یہ سب کچھ نامناسب زمینوں پر ہورہا ہے۔ حکومت نے کروڑوں روپے کی لاگت سے جو بڑے بڑے دفتر تعمیر کیے ہیں وہ ڈھیلی اور دلدل والی زمینوں پر قائم ہیں‘۔
0 comments:
Post a Comment