Jammu Kashmir Seeks Attention....Freedom is Our Birth Right....We Want United independent Jammu Kashmir..

Sunday, November 24, 2019

KIMS راولاکوٹ شیخ خلیفہ ہسپتال میں قاٸم غیرقانونی ادارہ

( راولاکوٹ(تحقیقی رپورٹ۔سردارذوالفقارخان
ضلعی انتظامیہ کی نااہلی یا مافیا راج؟ گیارہ ماہ گزرنے کو آئے پرائیویٹ سیکٹر میں قاٸم کے آٸی ایم ایس کشمیر انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس نامی میڈیکل ٹیکنالوجی تعلیمی ادارہ کا ایشو حل نہ ہو پایا، اس ادارے میں زیر تعلیم130کے قریب طلبہ و طالبات کے مستقبل پر سوالیہ نشان، ادارہ کی انتظامیہ پر لگائے گئے سنگین الزامات کے باوجود ارباب اختیارات کا مناسب کاروائی سے گریز سمجھ سے بالاتر،عوامی حلقوں میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے، صدر ریاست وزیر اعظم آزاد کشمیر اور چیف سیکرٹری سے نوٹس لینے اور معاملہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ۔
ماضی قریب میں آزاد کشمیر بالخصوص پونچھ ڈویژن میں"کو ایجو کیشن"نے فروغ پایا جس کا سہرا پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے سر جاتا ہے، پرائیویٹ سیکٹر میں کسی تعلیمی ادارے کے قیام کے لئے حکومتی پالیسی پر عملدرآمد نہ ہونے،چیک اینڈ بیلنس کے نظام کی غیر موجودگی،مدر پدر آزادی اور سوشل میڈیا کے عام استعمال سے تعلیمی اداروں میں جنسی طور پر ہراسگی اور منشیات کے استعمال میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور آئے روز کچھ ایسے واقعات منظر عام پر آرہے ہیں جن کی ہمارا مذہب اجازت دیتا ہے اور نہ ہی معاشرہ ایسے واقعات کا متحمل ہو سکتا ہے،یہ ایک مسلمہ حقیقت ہےکہ ایسے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے اور جو ایک آدھ رپورٹ ہوتا بھی ہے تو اسے دبانے کے لئےایک مخصوص گروہ سر گرم ہو جاتا ہے  جس سے بلیک میلنگ کو فروغ مل رہا ہے،معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی شعبہ تعلیم کاروبار کا روپ دہار چکا ہے رسمی تعلیم کے ساتھ ٹیکنیکل تعلیم بھی اس لپیٹ میں ہے یہاں تک کہ میڈیکل ٹیکنالوجی جیسا حساس شعبہ بھی اس سے مبرا نہیں رہا۔پونچھ ڈویژن کے واحد ہسپتال شیخ خلیفہ بن ذید النیہان راولاکوٹ کے دامن میں کشمیر انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل ساٸنسز راولاکوٹ نامی میڈیکل ٹیکنالوجی کالج گزشتہ 2سالوں سےپرائیویٹ سیکٹر میں قائم ہے جو ضلع بھر میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے،یہ پرائیویٹ ادارہ آزاد کشمیر کے محکمہ صحت عامہ کے  ملازم واسد سرفراز حال جونئیر ٹیکنیشن پیتھالوجی  شیخ خلیفہ ہسپتال راولاکوٹ نے اپنے ساتھی محمد اشتیاق کے ساتھ مل کر بغیر رجسٹریشن اور بدوں محکمانہ اجازت غیر قانونی طور پر قائم کر رکھا ہے جبکہ  اے جے کے گورنمنٹ سرونٹ(کنڈکٹ )1981 کی دفعہ 17 کے مطابق کوئی سرکاری ملازم دوران ملازمت کاروبار یا دوسری جگہ کام نہیں کر سکتا۔جنوری 2019 میں مذکورہ تعلیمی ادارہ کی ایک خاتون ٹیچر (ف خ ) نے مالکان پر ہراسگی و بلیک میلنگ کے الزام کے ساتھ استعفی دیتے ہوئے پولیس میں کارروائی کے لئے درخواست دی تاہم مالکان کی طرف سے تحریری معافی نامہ اور کچھ رقم ادائیگی کے بعد کارروائی سے دستبردار ہو گئی بعد ازاں کچھ طلبہ و طالبات نے مالکان پر ہراسگی و منشیات جیسے سنگین الزامات لگاتے ہوئےتحریری درخواست ہا ڈپٹی کمشنر پونچھ کو دیں جس پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر نے زیر مکتوب نمبری
 19/82- 86
 مورخہ14مارچ 2019
 میڈکل سپرٹینڈنٹ شیخ خلیفہ ہسپتال راولاکوٹ کو کے آٸی ایم ایس کی نسبت تحقیقات و محکمانہ کارروائی کے لئے استدعا کی اور ساتھ ہی اس ادارے کو بند کرنے کے احکامات بھی صادر فرمائے تاہم زیر تعلیم طلبہ وطالبات کو کوئی متبادل مہیا نہ کیا گیا،اسی دوران ہائر ایجوکیشن کمیشن کو بھی مناسب کارروائی و تحقیقات کے لئے تحریک کی گئی اور سیکرٹریٹ آف ہائر ایجو کیشن کمیشن نے زیر مکتوب نمبری 19/4090-9 مورخہ4 اپریل2019 ناظم کالجزمظفرآباد ڈویژن کو کے آٸی ایم ایس پونچھ کی تحقیقات وکارروائی کے احکامات جاری کئے ناظم کالجز نے زیر نمبری 3059 مورخہ 5 اپریل 2019 کو پرنسپل گورنمنٹ سائنس ماڈل کالج راولاکوٹ کو تحقیقات کے بعد رپورٹ ارسال کرنے کے احکامات جاری کئے تاہم رپورٹ کو مشتہر نہ کیا گیااور زیر تعلیم طلبہ و طالبات کو اسی افرا تفری میں ٹرم امتحان کے لئے ایبٹ آباد و پشاور بھیج دیا گیا جہاں سے واپسی پر چند طلبہ و طالبات نے اس وقت ایکٹیو پرنسپل کو تحریری طور پر اطلاع دی کہ وہاں امتحانات کے لئے واجبات کے علاوہ تین ہزارروپےفی کس کے حساب سے بطور رشوت لئے گئے اور کہا گیا کہ واٸیوا پاس کروایا جائے گا یہ رقم لاکھوں میں بنتی ہے جو کہ واسد سرفراز،اشتیاق، عمار خان اور مظفرآباد کیمپس کے پرنسپل امجد نے وصول کی، ساتھ ہی یہ انکشاف بھی ہوا کہ ایبٹ آباد و پشاور میں قیام کے دوران چند طالبات کو ہراساں بھی کیا گیا یہاں تک کہ ایک طالبعلم اور ایک طالبہ کو ایک ہی کمرا میں رہائش رکھنے کی اجازت بھی دی گئی۔انہی دنوں عوامی فورم پر یہ انکشاف بھی ہواکہ راولاکوٹ کیمپس میں ایک ہاسٹل بھی کے آٸی ایم ایس  طلباء کے لئے قائم کیا گیا ہے جس میں باہر کے لوگ بھی رہائش پذیر ہیں جو طلباء کی ہراسگی میں ملوث پائے گئے ہیں اور منشیات کا استعمال بھی سر عام کیا جاتا ہے ان انکشافات کے بعد 18 اکتوبر2019 کو عوام علاقہ کی طرف سے ایک درخواست برائے کاروائی بذریعہ عاطف صادق ساکن کھائیگلہ راولاکوٹ  ڈپٹی کمشنر کو دی گئی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ محکمہ صحت کے ملازمین واسد سرفراز اور محمد اشتیاق دوران سروسز ایک پرائیویٹ ادارہ چلا رہے ہیں جو کہ برائی کا اڈہ ہے جہاں فحاشی و منشیات کو فروغ دیا جا رہا ہے،ادارہ کسی اتھارٹی کے پاس رجسٹر نہیں ہے اور نہ ہی کسی بورڈ آف میڈیکل ٹیکنالوجی ایجوکیشن کے ساتھ الحاق شدہ ہے زیر تعلیم طلبہ و طالبات کو امتحانات کے لئے ایبٹ آباد و پشاور جانا پڑتا ہے جہاں مختلف مسائل کا سامنا رہتا ہے اور لاکھوں روپے بطور رشوت امتحانات میں شمولیت کے لئے ادائیگی کرنا پڑتی ہے،کالج میں فحاشی کا یہ عالم ہے کہ چند طلبہ و طالبات کے آپسی نا جائز تعلقات ہیں یہاں تک کہ کچھ طالبات کے اپنے میل اساتذہ کے ساتھ بھی تعلقات ہیں جنہیں مخفی رکھنا ضروری نہیں سمجھا جاتا،کالج میں لائبریری و لیبارٹری کی سہولت موجود نہ ہے جو کہ میڈیکل ٹیکنیکل ادارے کی بنیادی ضرورت ہیں،متعلقہ شعبے کا ٹیچنگ سٹاف بھی موجود نہ ہے،جن طلبہ و طالبات نے کارروائی کے لئے درخواست دے رکھی ہے انہیں بلیک میلنگ کے ذریعے دستبردار ہونے پر مجبور کیا جا رہا ہے،ضلعی انتظامیہ سے اجازت لئے بغیر ایک ہاسٹل قائم کیا گیا ہے جہاں باہر سے ملازمت پیشہ لوگ رہائش پذیر ہیں اور فحاشی کو فروغ دیا جا رہا ہے لہذا تحت ضابطہ کاروائی عمل میں لائی جائے-
باوثوق ذرائع کے مطابق ضلعی انتظامیہ کےادارہ بند کئے جانے کےواضح احکامات کے باوجود ہر ماہ نیا نام دے کر یہ ادارہ چلایا جا رہا ہے۔
ہماری تحقیق کے مطابق ادارہ واسد سرفراز اور محمد اشتیاق مل کر قائم کر رکھا ہے جو ہسپتال میں مستقل رات کی ڈیوٹی دیتے ہیں اور دن میں کالج کے معاملات دیکھتے ہیں جبکہ ہسپتال رول کے مطابق ملازمین روٹیشن میں تین شفٹوں میں ڈیوٹی دیتے ہیں ،ادارہ مجاز اتھارٹی کے پاس رجسٹر نہ ہے زیر تعلیم طلبہ و طالبات کو فرنٹئیر انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ایبٹ آباد ایمرسن انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز پشاور ہری پور انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ہری پور کے ذریعے کے پی کے بورڈ آف میڈیکل ٹیکنالوجی اور الجنت انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز سیالکوٹ کے ذریعے پنجاب بورڈ آف میڈیکل ٹیکنالوجی میں رجسٹر کروا کر امتحانات میں شامل کروایا جاتا ہے۔میڈیکل ٹیکنالوجی کی تعلیم دینے کے لئےادارہ قائم کرنا ہو تو اس کے لئے ایک ضابطہ متعین ہےجس کے مطابق ایک مکمل ہسپتال،شعبے سے متعلق لائبریری و مکمل لیبارٹری کا ہونا ضروری امر ہے جبکہ پاکستان میڈیکل کونسل سے این او سی حاصل کرنا بھی ضروری ہوتا ہےاور یہ لوازمات مذکورہ ادارہ پورے نہیں کر رہا ہے۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اختیارات اپنی روایتی بے حسی و چشم پوشی والے رویے کو پس پشت ڈالتے ہوئےمعاملہ کی غیر جانبدار تحقیقات کروائیں اور ملوث افراد کو قرار واقعی سزائیں دیں تاکہ طلبہ و طالبات کے مستقبل سے کھلواڑ کا سد باب ہو اور اس ادارے میں زیر تعلیم 130 کے قریب طلبہ و طالبات کو کوئی متبادل بھی مہیا کیا جائے تا کہ ان کا مستقبل تاریک ہونے سے بچ سکے۔
writter is a free lance journalist and resercher can b contact 0092 345 5477274)

Friday, November 1, 2019

Kashmir's never-ending conflict, a timeline of 70 years.

The seven-decade dispute over Kashmir has become a humanitarian nightmare, the cause of three wars between nuclear rivals Pakistan and India, and the reason for an ongoing armed rebellion against New Delhi's rule.
Since 1989, thousands of people, mostly civilians, have been killed or disappeared in India-administered Kashmir. ( AP )

The Kashmir dispute remains the oldest unresolved disagreement on the UN agenda.
It's been the cause of three wars between nuclear rivals Pakistan and India, and there has been an armed rebellion since 1989 against New Delhi's rule in India-administered Kashmir.
Former US president Bill Clinton called it "the most dangerous place in the world." Much of the world pays Kashmir little attention today, despite its continuing volatility.
But how did we arrive here?
Kashmiris are said to have not ruled their region since their king Yusuf Shah Chak was defeated in the 16th century by the Mughals.
In November 1586, when Chak launched a guerrilla attack against the armies of Mughal King Akbar, he was certain that "Independence is just a day away."
That was over 400 years ago.
From Mughals, Kashmir passed into the hands of Afghans and then to the Sikhs.
Then it was the British and their empire building at the expense of indigenous interests.
Today, those guerrilla attacks continue. This time, against Indian soldiers.
Kashmir's Balfour deal
Like the Sykes-Picot and Balfour agreements which tore apart the Middle East, the British were cavalier in their treatment of the region. With the 1846 Treaty of Amritsar, the Raj sold Muslim-majority Kashmir and its citizens to a Dogra king of the Jammu region – Ghulab Singh.
The Hindu Dogras switched sides from the Sikh empire, joined the British, and helped them defeat the Sikhs in the 1845-46 Anglo-Sikh wars.
In exchange for Kashmir, the British received 7.5 million nanakshahi rupees (the currency under the Sikh empire), one horse, 12 goats, and six cashmere shawls. This sale remains etched in the collective awareness of many Kashmiris.
From 1847 to 1947, the Dogras expanded their control to Buddhist Ladakh and the independent states of Gilgit and Baltistan. Many Kashmiris chafed at Dogra rule.
In 1931, the Quit Kashmir movement against Dogra rule began to gain momentum.
When the British decided to leave the subcontinent in 1947, all 565 princely kingdoms were told to join either Pakistan or India, i.e. to essentially pick between a Muslim-majority or a Hindu-majority state.
Ghulab Singh's great-grandson, Hari Singh, who ruled Kashmir, opted for independence.
Pakistan was sure that Kashmir, as a Muslim-majority region, would join it.
It signed a standstill agreement with Hari Singh that assured Pakistan would not hinder travel, trade and communications. India refrained from a similar deal.
Jammu massacre
In the Poonch area, whose people had served in the British army, an uprising against Dogra rule erupted in August 1947, which soon extended beyond the district. 
Dogra forces aided by sympathetic Hindus and Sikhs attempted to quell the uprising in Jammu. What some labelled as "the systematic extermination of Muslims" resulted in the deaths of thousands; estimates range between 70,000 to over 200,000 massacred in Jammu region.
Hundreds of thousands of Muslims fled to Pakistan and those who stayed back went from being a majority to a minority group in the Jammu region. 
In Poonch, the tables turned when the rebels sought support from Pakistani Pashtun tribes.
They took over part of Poonch from Dogra forces in what is now known as Pakistan-administered Kashmir, near the line of control. The joint forces of Poonchis and Pashtuns also reached the Kashmir valley in October 1947.
Hari Singh immediately sought India's help by temporarily acceding the territory to India.
Then Governor-General and last Viceroy Lord Mountbatten backed his decision with an understanding that this would only be temporary accession prior to "a referendum or a plebiscite."
Under the accession terms, India's jurisdiction was to extend to Kashmir's external affairs, defence and communications.
Indian army enters Kashmir
On October 27, India entered Kashmir, eventually suppressing the rebellion. Many Kashmiris on both sides of the divide observe this day as Black Day. India celebrates it as Infantry Day.
Hari Singh went into a self-imposed exile to India but by then a provisional Azad(or free) government was formed in areas liberated by the Poonch uprising.
This region soon popularly became known as Azad Jammu and Kashmir.
Pakistan disputed Hari Singh's accession, saying he had no right to sign an agreement with India when a standstill agreement with Pakistan was still in force.
Pakistanis and Kashmiris argue that Hari Singh was unpopular in Kashmir and therefore not entitled to take a decision on behalf of his people.
On November 2, 1947, Indian Prime Minister Pandit Jawaharlal Nehru promised a plebiscite in Kashmir saying:
"The fate of the State of Jammu and Kashmir is ultimately to be decided by the people. The pledge we have given not only to people of Kashmir but also to the world. We will not and cannot back out of it."
Twenty-three days later, Nehru again promised plebiscite in Kashmir:
"We have suggested that when people of Kashmir are given a chance to decide their future, this should be done under the supervision of an impartial tribunal such as United Nations Organization."
But India didn't pull back its troops.
Pakistan and India went to war in May 1948, with each side unable to move beyond the de facto border, Line of Control (LoC) that divides the hamlets and hearts of Kashmir into Pakistani and Indian-administered Kashmir.
UN's call for a plebiscite
But before that, India took the case to the United Nations, which called for a plebiscite in the region, agreed by both India and Pakistan.
Meanwhile, India formed an emergency government in October 1948, with pro-India Kashmiri Sheikh Mohammed Abdullah as the prime minister of Kashmir.
Pakistan and India agreed to a ceasefire in 1949 but there was no truce despite the UN calling for a plebiscite in the region in multiple resolutions.
In 1957, India formally incorporated the disputed region into the Indian union.
It granted Kashmir semi-autonomous status under Article 370. But that status was gradually eroded.
In 1962, India lost a sliver of Kashmir called Aksai Chin in a war to China which merged the new territory into its Xinjiang Uyghur Autonomous Region.
In 1963, Pakistan and China exchanged border territories. The deal passed another stretch of Kashmir called Shakasgam valley into Chinese hands, completing the trifurcation of Kashmir.
The 1965 war between India and Pakistan, initiated by the latter, ended in a stalemate.
In the 1966 Tashkent agreement, both sides agreed to resolve the Kashmir dispute.
They fought another war in 1971, in which India forces helped East Pakistan, now Bangladesh, separate from West Pakistan.
In 1972, India and Pakistan signed the Shimla Agreement that reiterated the promises made in Tashkent.
Absorbing part of Kashmir into India
Between 1948-1975, India jailed and released Abdullah multiple times. He finally agreed in 1975 to become the chief minister of India-administered Kashmir. 
New Delhi was accused of rigging the local assembly elections of 1987 in Kashmir in favour of Abdullah's National Conference party, triggering a colossal backlash that continues to today.
Boys and men in their crossed the Line of Control (LoC) to get arms training from Pakistan. They came back to start an armed rebellion against New Delhi’s rule. 
Led by the pro-independence Jammu and Kashmir Liberation Front, the rebellion was soon joined by pro-Pakistan outfits like Hizbul Mujahideen, now designated by the administration of US President Donald Trump as a terror group. It had avoided that designation for almost three decades under previous US administrations.
The defeat of Russia in Afghanistan in 1989 was a morale booster in Kashmir and beyond to groups who wanted to defeat another superpower – India.
Soon militants from Afghanistan and Pakistan and from as far as Sudan and Chechnya were fighting in the rebellion.
India dispatched some 600,000 soldiers to crush the uprising, turning Kashmir into the world's most militarised zone.
Militants and Pakistani troops occupied the heights of Kargil inside Kashmir in 1999. That war ended with the US pressurising Pakistan to pull back from Kargil and the prime minister of Pakistan being ousted in a military coup. India claimed it as a military victory.
Kashmir after 9/11 attacks
The US "War on Terror" following the September 11, 2001 attacks on the United States forced Pakistan to reframe its support for those it called 'freedom fighters' in the Kashmir conflict. Islamabad was also forced to close most of its training camps in Pakistan-administered Kashmir.
Many foreign militants left Kashmir for Afghanistan to fight US troops.
Under former military dictator and president General Pervez Musharaf, Pakistan entered a ceasefire with India in 2003 that some say helped India consolidate its grip over Kashmir. It was also able to fence the de facto border with modern technology for the first time.
Kashmir went off the international radar until 2008, when the Indian government transferred a piece of land to a Hindu shrine.
This sparked non-violent but massive anti-India demonstrations dispersed with force. 
In 2010, a series of killings and staged gun battles by Indian troops sparked another wave of demonstrations against New Delhi's rule.
Indian soldiers killed dozens of peopleand wounded thousands in protests that went on for months.
Not everybody, however, agreed with the shift from armed rebellion to non-violent confrontation, which, in any case, did not force a back down by India.
Young men like Burhan Muzaffar Wanijoined rebels or militants and took up arms to fight Indian soldiers and police whom they see as tools of the occupying force.
Wani's killing in 2016  provoked the third wave of pro-independence protests in eight years.
India responded with arms and controversial pellet shotguns, blinding many and maiming thousands of protesters and by standers.
Too old to be left unresolved
October 27, 2017 marks 70 years of modern dispute over Kashmir. Or as some Kashmiris say, 2017 marks 432 years of foreign rule.
Since 1989, nearly 100,000 people, mostly civilians, have disappeared or been killed, many of them buried in unmarked mass graves.
The UN, Organisation of Islamic Cooperation and other countries have called for a UN-brokered referendum in the region but New Delhi rejects any third-party role in the dispute. 
The ongoing confrontation over Kashmir has become one of the greatest human rights crises in history, marked by wanton killings, rape, incarceration of leaders and activists, torture and disappearances of Kashmiris. 
As Kashmir expert and author Christopher Snedden says: "The Kashmir dispute is now so old that if it were a person, it would be entitled to a pension.

https://www.google.com/amp/s/www.trtworld.com/asia/kashmir-s-never-ending-conflict-a-timeline-of-70-years-11666/amp