( راولاکوٹ(تحقیقی رپورٹ۔سردارذوالفقارخان
ضلعی انتظامیہ کی نااہلی یا مافیا راج؟ گیارہ ماہ گزرنے کو آئے پرائیویٹ سیکٹر میں قاٸم کے آٸی ایم ایس کشمیر انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس نامی میڈیکل ٹیکنالوجی تعلیمی ادارہ کا ایشو حل نہ ہو پایا، اس ادارے میں زیر تعلیم130کے قریب طلبہ و طالبات کے مستقبل پر سوالیہ نشان، ادارہ کی انتظامیہ پر لگائے گئے سنگین الزامات کے باوجود ارباب اختیارات کا مناسب کاروائی سے گریز سمجھ سے بالاتر،عوامی حلقوں میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے، صدر ریاست وزیر اعظم آزاد کشمیر اور چیف سیکرٹری سے نوٹس لینے اور معاملہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ۔
ماضی قریب میں آزاد کشمیر بالخصوص پونچھ ڈویژن میں"کو ایجو کیشن"نے فروغ پایا جس کا سہرا پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے سر جاتا ہے، پرائیویٹ سیکٹر میں کسی تعلیمی ادارے کے قیام کے لئے حکومتی پالیسی پر عملدرآمد نہ ہونے،چیک اینڈ بیلنس کے نظام کی غیر موجودگی،مدر پدر آزادی اور سوشل میڈیا کے عام استعمال سے تعلیمی اداروں میں جنسی طور پر ہراسگی اور منشیات کے استعمال میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور آئے روز کچھ ایسے واقعات منظر عام پر آرہے ہیں جن کی ہمارا مذہب اجازت دیتا ہے اور نہ ہی معاشرہ ایسے واقعات کا متحمل ہو سکتا ہے،یہ ایک مسلمہ حقیقت ہےکہ ایسے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے اور جو ایک آدھ رپورٹ ہوتا بھی ہے تو اسے دبانے کے لئےایک مخصوص گروہ سر گرم ہو جاتا ہے جس سے بلیک میلنگ کو فروغ مل رہا ہے،معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی شعبہ تعلیم کاروبار کا روپ دہار چکا ہے رسمی تعلیم کے ساتھ ٹیکنیکل تعلیم بھی اس لپیٹ میں ہے یہاں تک کہ میڈیکل ٹیکنالوجی جیسا حساس شعبہ بھی اس سے مبرا نہیں رہا۔پونچھ ڈویژن کے واحد ہسپتال شیخ خلیفہ بن ذید النیہان راولاکوٹ کے دامن میں کشمیر انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل ساٸنسز راولاکوٹ نامی میڈیکل ٹیکنالوجی کالج گزشتہ 2سالوں سےپرائیویٹ سیکٹر میں قائم ہے جو ضلع بھر میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے،یہ پرائیویٹ ادارہ آزاد کشمیر کے محکمہ صحت عامہ کے ملازم واسد سرفراز حال جونئیر ٹیکنیشن پیتھالوجی شیخ خلیفہ ہسپتال راولاکوٹ نے اپنے ساتھی محمد اشتیاق کے ساتھ مل کر بغیر رجسٹریشن اور بدوں محکمانہ اجازت غیر قانونی طور پر قائم کر رکھا ہے جبکہ اے جے کے گورنمنٹ سرونٹ(کنڈکٹ )1981 کی دفعہ 17 کے مطابق کوئی سرکاری ملازم دوران ملازمت کاروبار یا دوسری جگہ کام نہیں کر سکتا۔جنوری 2019 میں مذکورہ تعلیمی ادارہ کی ایک خاتون ٹیچر (ف خ ) نے مالکان پر ہراسگی و بلیک میلنگ کے الزام کے ساتھ استعفی دیتے ہوئے پولیس میں کارروائی کے لئے درخواست دی تاہم مالکان کی طرف سے تحریری معافی نامہ اور کچھ رقم ادائیگی کے بعد کارروائی سے دستبردار ہو گئی بعد ازاں کچھ طلبہ و طالبات نے مالکان پر ہراسگی و منشیات جیسے سنگین الزامات لگاتے ہوئےتحریری درخواست ہا ڈپٹی کمشنر پونچھ کو دیں جس پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر نے زیر مکتوب نمبری
19/82- 86
مورخہ14مارچ 2019
میڈکل سپرٹینڈنٹ شیخ خلیفہ ہسپتال راولاکوٹ کو کے آٸی ایم ایس کی نسبت تحقیقات و محکمانہ کارروائی کے لئے استدعا کی اور ساتھ ہی اس ادارے کو بند کرنے کے احکامات بھی صادر فرمائے تاہم زیر تعلیم طلبہ وطالبات کو کوئی متبادل مہیا نہ کیا گیا،اسی دوران ہائر ایجوکیشن کمیشن کو بھی مناسب کارروائی و تحقیقات کے لئے تحریک کی گئی اور سیکرٹریٹ آف ہائر ایجو کیشن کمیشن نے زیر مکتوب نمبری 19/4090-9 مورخہ4 اپریل2019 ناظم کالجزمظفرآباد ڈویژن کو کے آٸی ایم ایس پونچھ کی تحقیقات وکارروائی کے احکامات جاری کئے ناظم کالجز نے زیر نمبری 3059 مورخہ 5 اپریل 2019 کو پرنسپل گورنمنٹ سائنس ماڈل کالج راولاکوٹ کو تحقیقات کے بعد رپورٹ ارسال کرنے کے احکامات جاری کئے تاہم رپورٹ کو مشتہر نہ کیا گیااور زیر تعلیم طلبہ و طالبات کو اسی افرا تفری میں ٹرم امتحان کے لئے ایبٹ آباد و پشاور بھیج دیا گیا جہاں سے واپسی پر چند طلبہ و طالبات نے اس وقت ایکٹیو پرنسپل کو تحریری طور پر اطلاع دی کہ وہاں امتحانات کے لئے واجبات کے علاوہ تین ہزارروپےفی کس کے حساب سے بطور رشوت لئے گئے اور کہا گیا کہ واٸیوا پاس کروایا جائے گا یہ رقم لاکھوں میں بنتی ہے جو کہ واسد سرفراز،اشتیاق، عمار خان اور مظفرآباد کیمپس کے پرنسپل امجد نے وصول کی، ساتھ ہی یہ انکشاف بھی ہوا کہ ایبٹ آباد و پشاور میں قیام کے دوران چند طالبات کو ہراساں بھی کیا گیا یہاں تک کہ ایک طالبعلم اور ایک طالبہ کو ایک ہی کمرا میں رہائش رکھنے کی اجازت بھی دی گئی۔انہی دنوں عوامی فورم پر یہ انکشاف بھی ہواکہ راولاکوٹ کیمپس میں ایک ہاسٹل بھی کے آٸی ایم ایس طلباء کے لئے قائم کیا گیا ہے جس میں باہر کے لوگ بھی رہائش پذیر ہیں جو طلباء کی ہراسگی میں ملوث پائے گئے ہیں اور منشیات کا استعمال بھی سر عام کیا جاتا ہے ان انکشافات کے بعد 18 اکتوبر2019 کو عوام علاقہ کی طرف سے ایک درخواست برائے کاروائی بذریعہ عاطف صادق ساکن کھائیگلہ راولاکوٹ ڈپٹی کمشنر کو دی گئی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ محکمہ صحت کے ملازمین واسد سرفراز اور محمد اشتیاق دوران سروسز ایک پرائیویٹ ادارہ چلا رہے ہیں جو کہ برائی کا اڈہ ہے جہاں فحاشی و منشیات کو فروغ دیا جا رہا ہے،ادارہ کسی اتھارٹی کے پاس رجسٹر نہیں ہے اور نہ ہی کسی بورڈ آف میڈیکل ٹیکنالوجی ایجوکیشن کے ساتھ الحاق شدہ ہے زیر تعلیم طلبہ و طالبات کو امتحانات کے لئے ایبٹ آباد و پشاور جانا پڑتا ہے جہاں مختلف مسائل کا سامنا رہتا ہے اور لاکھوں روپے بطور رشوت امتحانات میں شمولیت کے لئے ادائیگی کرنا پڑتی ہے،کالج میں فحاشی کا یہ عالم ہے کہ چند طلبہ و طالبات کے آپسی نا جائز تعلقات ہیں یہاں تک کہ کچھ طالبات کے اپنے میل اساتذہ کے ساتھ بھی تعلقات ہیں جنہیں مخفی رکھنا ضروری نہیں سمجھا جاتا،کالج میں لائبریری و لیبارٹری کی سہولت موجود نہ ہے جو کہ میڈیکل ٹیکنیکل ادارے کی بنیادی ضرورت ہیں،متعلقہ شعبے کا ٹیچنگ سٹاف بھی موجود نہ ہے،جن طلبہ و طالبات نے کارروائی کے لئے درخواست دے رکھی ہے انہیں بلیک میلنگ کے ذریعے دستبردار ہونے پر مجبور کیا جا رہا ہے،ضلعی انتظامیہ سے اجازت لئے بغیر ایک ہاسٹل قائم کیا گیا ہے جہاں باہر سے ملازمت پیشہ لوگ رہائش پذیر ہیں اور فحاشی کو فروغ دیا جا رہا ہے لہذا تحت ضابطہ کاروائی عمل میں لائی جائے-
باوثوق ذرائع کے مطابق ضلعی انتظامیہ کےادارہ بند کئے جانے کےواضح احکامات کے باوجود ہر ماہ نیا نام دے کر یہ ادارہ چلایا جا رہا ہے۔
ہماری تحقیق کے مطابق ادارہ واسد سرفراز اور محمد اشتیاق مل کر قائم کر رکھا ہے جو ہسپتال میں مستقل رات کی ڈیوٹی دیتے ہیں اور دن میں کالج کے معاملات دیکھتے ہیں جبکہ ہسپتال رول کے مطابق ملازمین روٹیشن میں تین شفٹوں میں ڈیوٹی دیتے ہیں ،ادارہ مجاز اتھارٹی کے پاس رجسٹر نہ ہے زیر تعلیم طلبہ و طالبات کو فرنٹئیر انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ایبٹ آباد ایمرسن انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز پشاور ہری پور انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ہری پور کے ذریعے کے پی کے بورڈ آف میڈیکل ٹیکنالوجی اور الجنت انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز سیالکوٹ کے ذریعے پنجاب بورڈ آف میڈیکل ٹیکنالوجی میں رجسٹر کروا کر امتحانات میں شامل کروایا جاتا ہے۔میڈیکل ٹیکنالوجی کی تعلیم دینے کے لئےادارہ قائم کرنا ہو تو اس کے لئے ایک ضابطہ متعین ہےجس کے مطابق ایک مکمل ہسپتال،شعبے سے متعلق لائبریری و مکمل لیبارٹری کا ہونا ضروری امر ہے جبکہ پاکستان میڈیکل کونسل سے این او سی حاصل کرنا بھی ضروری ہوتا ہےاور یہ لوازمات مذکورہ ادارہ پورے نہیں کر رہا ہے۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اختیارات اپنی روایتی بے حسی و چشم پوشی والے رویے کو پس پشت ڈالتے ہوئےمعاملہ کی غیر جانبدار تحقیقات کروائیں اور ملوث افراد کو قرار واقعی سزائیں دیں تاکہ طلبہ و طالبات کے مستقبل سے کھلواڑ کا سد باب ہو اور اس ادارے میں زیر تعلیم 130 کے قریب طلبہ و طالبات کو کوئی متبادل بھی مہیا کیا جائے تا کہ ان کا مستقبل تاریک ہونے سے بچ سکے۔
ضلعی انتظامیہ کی نااہلی یا مافیا راج؟ گیارہ ماہ گزرنے کو آئے پرائیویٹ سیکٹر میں قاٸم کے آٸی ایم ایس کشمیر انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس نامی میڈیکل ٹیکنالوجی تعلیمی ادارہ کا ایشو حل نہ ہو پایا، اس ادارے میں زیر تعلیم130کے قریب طلبہ و طالبات کے مستقبل پر سوالیہ نشان، ادارہ کی انتظامیہ پر لگائے گئے سنگین الزامات کے باوجود ارباب اختیارات کا مناسب کاروائی سے گریز سمجھ سے بالاتر،عوامی حلقوں میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے، صدر ریاست وزیر اعظم آزاد کشمیر اور چیف سیکرٹری سے نوٹس لینے اور معاملہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ۔
ماضی قریب میں آزاد کشمیر بالخصوص پونچھ ڈویژن میں"کو ایجو کیشن"نے فروغ پایا جس کا سہرا پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے سر جاتا ہے، پرائیویٹ سیکٹر میں کسی تعلیمی ادارے کے قیام کے لئے حکومتی پالیسی پر عملدرآمد نہ ہونے،چیک اینڈ بیلنس کے نظام کی غیر موجودگی،مدر پدر آزادی اور سوشل میڈیا کے عام استعمال سے تعلیمی اداروں میں جنسی طور پر ہراسگی اور منشیات کے استعمال میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور آئے روز کچھ ایسے واقعات منظر عام پر آرہے ہیں جن کی ہمارا مذہب اجازت دیتا ہے اور نہ ہی معاشرہ ایسے واقعات کا متحمل ہو سکتا ہے،یہ ایک مسلمہ حقیقت ہےکہ ایسے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے اور جو ایک آدھ رپورٹ ہوتا بھی ہے تو اسے دبانے کے لئےایک مخصوص گروہ سر گرم ہو جاتا ہے جس سے بلیک میلنگ کو فروغ مل رہا ہے،معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی شعبہ تعلیم کاروبار کا روپ دہار چکا ہے رسمی تعلیم کے ساتھ ٹیکنیکل تعلیم بھی اس لپیٹ میں ہے یہاں تک کہ میڈیکل ٹیکنالوجی جیسا حساس شعبہ بھی اس سے مبرا نہیں رہا۔پونچھ ڈویژن کے واحد ہسپتال شیخ خلیفہ بن ذید النیہان راولاکوٹ کے دامن میں کشمیر انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل ساٸنسز راولاکوٹ نامی میڈیکل ٹیکنالوجی کالج گزشتہ 2سالوں سےپرائیویٹ سیکٹر میں قائم ہے جو ضلع بھر میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے،یہ پرائیویٹ ادارہ آزاد کشمیر کے محکمہ صحت عامہ کے ملازم واسد سرفراز حال جونئیر ٹیکنیشن پیتھالوجی شیخ خلیفہ ہسپتال راولاکوٹ نے اپنے ساتھی محمد اشتیاق کے ساتھ مل کر بغیر رجسٹریشن اور بدوں محکمانہ اجازت غیر قانونی طور پر قائم کر رکھا ہے جبکہ اے جے کے گورنمنٹ سرونٹ(کنڈکٹ )1981 کی دفعہ 17 کے مطابق کوئی سرکاری ملازم دوران ملازمت کاروبار یا دوسری جگہ کام نہیں کر سکتا۔جنوری 2019 میں مذکورہ تعلیمی ادارہ کی ایک خاتون ٹیچر (ف خ ) نے مالکان پر ہراسگی و بلیک میلنگ کے الزام کے ساتھ استعفی دیتے ہوئے پولیس میں کارروائی کے لئے درخواست دی تاہم مالکان کی طرف سے تحریری معافی نامہ اور کچھ رقم ادائیگی کے بعد کارروائی سے دستبردار ہو گئی بعد ازاں کچھ طلبہ و طالبات نے مالکان پر ہراسگی و منشیات جیسے سنگین الزامات لگاتے ہوئےتحریری درخواست ہا ڈپٹی کمشنر پونچھ کو دیں جس پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر نے زیر مکتوب نمبری
19/82- 86
مورخہ14مارچ 2019
میڈکل سپرٹینڈنٹ شیخ خلیفہ ہسپتال راولاکوٹ کو کے آٸی ایم ایس کی نسبت تحقیقات و محکمانہ کارروائی کے لئے استدعا کی اور ساتھ ہی اس ادارے کو بند کرنے کے احکامات بھی صادر فرمائے تاہم زیر تعلیم طلبہ وطالبات کو کوئی متبادل مہیا نہ کیا گیا،اسی دوران ہائر ایجوکیشن کمیشن کو بھی مناسب کارروائی و تحقیقات کے لئے تحریک کی گئی اور سیکرٹریٹ آف ہائر ایجو کیشن کمیشن نے زیر مکتوب نمبری 19/4090-9 مورخہ4 اپریل2019 ناظم کالجزمظفرآباد ڈویژن کو کے آٸی ایم ایس پونچھ کی تحقیقات وکارروائی کے احکامات جاری کئے ناظم کالجز نے زیر نمبری 3059 مورخہ 5 اپریل 2019 کو پرنسپل گورنمنٹ سائنس ماڈل کالج راولاکوٹ کو تحقیقات کے بعد رپورٹ ارسال کرنے کے احکامات جاری کئے تاہم رپورٹ کو مشتہر نہ کیا گیااور زیر تعلیم طلبہ و طالبات کو اسی افرا تفری میں ٹرم امتحان کے لئے ایبٹ آباد و پشاور بھیج دیا گیا جہاں سے واپسی پر چند طلبہ و طالبات نے اس وقت ایکٹیو پرنسپل کو تحریری طور پر اطلاع دی کہ وہاں امتحانات کے لئے واجبات کے علاوہ تین ہزارروپےفی کس کے حساب سے بطور رشوت لئے گئے اور کہا گیا کہ واٸیوا پاس کروایا جائے گا یہ رقم لاکھوں میں بنتی ہے جو کہ واسد سرفراز،اشتیاق، عمار خان اور مظفرآباد کیمپس کے پرنسپل امجد نے وصول کی، ساتھ ہی یہ انکشاف بھی ہوا کہ ایبٹ آباد و پشاور میں قیام کے دوران چند طالبات کو ہراساں بھی کیا گیا یہاں تک کہ ایک طالبعلم اور ایک طالبہ کو ایک ہی کمرا میں رہائش رکھنے کی اجازت بھی دی گئی۔انہی دنوں عوامی فورم پر یہ انکشاف بھی ہواکہ راولاکوٹ کیمپس میں ایک ہاسٹل بھی کے آٸی ایم ایس طلباء کے لئے قائم کیا گیا ہے جس میں باہر کے لوگ بھی رہائش پذیر ہیں جو طلباء کی ہراسگی میں ملوث پائے گئے ہیں اور منشیات کا استعمال بھی سر عام کیا جاتا ہے ان انکشافات کے بعد 18 اکتوبر2019 کو عوام علاقہ کی طرف سے ایک درخواست برائے کاروائی بذریعہ عاطف صادق ساکن کھائیگلہ راولاکوٹ ڈپٹی کمشنر کو دی گئی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ محکمہ صحت کے ملازمین واسد سرفراز اور محمد اشتیاق دوران سروسز ایک پرائیویٹ ادارہ چلا رہے ہیں جو کہ برائی کا اڈہ ہے جہاں فحاشی و منشیات کو فروغ دیا جا رہا ہے،ادارہ کسی اتھارٹی کے پاس رجسٹر نہیں ہے اور نہ ہی کسی بورڈ آف میڈیکل ٹیکنالوجی ایجوکیشن کے ساتھ الحاق شدہ ہے زیر تعلیم طلبہ و طالبات کو امتحانات کے لئے ایبٹ آباد و پشاور جانا پڑتا ہے جہاں مختلف مسائل کا سامنا رہتا ہے اور لاکھوں روپے بطور رشوت امتحانات میں شمولیت کے لئے ادائیگی کرنا پڑتی ہے،کالج میں فحاشی کا یہ عالم ہے کہ چند طلبہ و طالبات کے آپسی نا جائز تعلقات ہیں یہاں تک کہ کچھ طالبات کے اپنے میل اساتذہ کے ساتھ بھی تعلقات ہیں جنہیں مخفی رکھنا ضروری نہیں سمجھا جاتا،کالج میں لائبریری و لیبارٹری کی سہولت موجود نہ ہے جو کہ میڈیکل ٹیکنیکل ادارے کی بنیادی ضرورت ہیں،متعلقہ شعبے کا ٹیچنگ سٹاف بھی موجود نہ ہے،جن طلبہ و طالبات نے کارروائی کے لئے درخواست دے رکھی ہے انہیں بلیک میلنگ کے ذریعے دستبردار ہونے پر مجبور کیا جا رہا ہے،ضلعی انتظامیہ سے اجازت لئے بغیر ایک ہاسٹل قائم کیا گیا ہے جہاں باہر سے ملازمت پیشہ لوگ رہائش پذیر ہیں اور فحاشی کو فروغ دیا جا رہا ہے لہذا تحت ضابطہ کاروائی عمل میں لائی جائے-
باوثوق ذرائع کے مطابق ضلعی انتظامیہ کےادارہ بند کئے جانے کےواضح احکامات کے باوجود ہر ماہ نیا نام دے کر یہ ادارہ چلایا جا رہا ہے۔
ہماری تحقیق کے مطابق ادارہ واسد سرفراز اور محمد اشتیاق مل کر قائم کر رکھا ہے جو ہسپتال میں مستقل رات کی ڈیوٹی دیتے ہیں اور دن میں کالج کے معاملات دیکھتے ہیں جبکہ ہسپتال رول کے مطابق ملازمین روٹیشن میں تین شفٹوں میں ڈیوٹی دیتے ہیں ،ادارہ مجاز اتھارٹی کے پاس رجسٹر نہ ہے زیر تعلیم طلبہ و طالبات کو فرنٹئیر انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ایبٹ آباد ایمرسن انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز پشاور ہری پور انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ہری پور کے ذریعے کے پی کے بورڈ آف میڈیکل ٹیکنالوجی اور الجنت انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز سیالکوٹ کے ذریعے پنجاب بورڈ آف میڈیکل ٹیکنالوجی میں رجسٹر کروا کر امتحانات میں شامل کروایا جاتا ہے۔میڈیکل ٹیکنالوجی کی تعلیم دینے کے لئےادارہ قائم کرنا ہو تو اس کے لئے ایک ضابطہ متعین ہےجس کے مطابق ایک مکمل ہسپتال،شعبے سے متعلق لائبریری و مکمل لیبارٹری کا ہونا ضروری امر ہے جبکہ پاکستان میڈیکل کونسل سے این او سی حاصل کرنا بھی ضروری ہوتا ہےاور یہ لوازمات مذکورہ ادارہ پورے نہیں کر رہا ہے۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اختیارات اپنی روایتی بے حسی و چشم پوشی والے رویے کو پس پشت ڈالتے ہوئےمعاملہ کی غیر جانبدار تحقیقات کروائیں اور ملوث افراد کو قرار واقعی سزائیں دیں تاکہ طلبہ و طالبات کے مستقبل سے کھلواڑ کا سد باب ہو اور اس ادارے میں زیر تعلیم 130 کے قریب طلبہ و طالبات کو کوئی متبادل بھی مہیا کیا جائے تا کہ ان کا مستقبل تاریک ہونے سے بچ سکے۔
writter is a free lance journalist and resercher can b contact 0092 345 5477274)